بیان میں کہا گیا ہے کہ حالیہ دنوں میں کچھ فلسطینی شہریوں کو طبی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر عارضی ویزے ضرور جاری کیے گئے ہیں، تاہم ان کی درست تعداد فراہم نہیں کی گئی۔ محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق صرف 2025 کے دوران فلسطینی اتھارٹی کی سفری دستاویزات رکھنے والے افراد کو اب تک 3,800 سے زائد B1/B2 وزیٹر ویزے جاری کیے گئے ہیں۔
کونسل آن امریکن۔اسلامک ریلیشنز (CAIR) نے امریکی فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ویزوں کی معطلی غیرانسانی ہے اور یہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ کے شہری شدید انسانی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام عام شہریوں کے لیے مزید مشکلات پیدا کرے گا۔
اسی طرح فلسطین چلڈرنز ریلیف فنڈ نے ایک بیان میں کہا کہ یہ فیصلہ تباہ کن ہے کیونکہ وہ گزشتہ تین دہائیوں سے شدید بیمار اور زخمی فلسطینی بچوں کو علاج کے لیے امریکا لے کر جاتے رہے ہیں، مگر ویزوں کی معطلی ان کے مشن میں بڑی رکاوٹ ہے۔
امریکی وزارتِ خارجہ کی اس پالیسی میں تبدیلی اُس وقت سامنے آئی جب دائیں بازو کی ایک انتہا پسند کارکن لارا لومر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’’ایکس‘‘ پر ویزا پروگرام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ پر زور دیا کہ اس ’’پالیسی‘‘ کو ختم کیا جائے۔ بعد ازاں لومر نے ویزوں کی معطلی کا کریڈٹ خود کو دیا اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا شکریہ بھی ادا کیا۔
ابھی تک امریکی حکومت نے فلسطینی مہاجرین کو باضابطہ پناہ دینے کے کسی منصوبے کا اعلان نہیں کیا ہے۔ تاہم رپورٹس کے مطابق اسرائیل اور جنوبی سوڈان کے درمیان ایک ممکنہ معاہدے پر بات چیت جاری ہے، جس کے تحت کچھ فلسطینی شہریوں کو جنوبی سوڈان میں عارضی طور پر آباد کیا جا سکتا ہے۔
یہ فیصلہ عالمی سطح پر بھی تنقید کی زد میں ہے اور مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکا کو چاہیے کہ وہ انسانی بنیادوں پر ویزوں کا اجرا جاری رکھے تاکہ بیمار اور متاثرہ افراد کو ریلیف مل سکے۔
0 Comments