بھارت اور چین کے درمیان پانچ سال بعد سرحدی تجارت کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔ غیر ملکی خبر ایجنسیوں کے مطابق، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیرف کے نظام سے متاثرہ عالمی تجارتی ماحول میں دونوں پڑوسی ممالک تعلقات میں نرمی لانے پر مجبور ہوئے ہیں۔
ماضی میں برف پوش اور بلند و بالا ہمالیائی سرحدی راستوں سے بھارت اور چین کے درمیان تجارت ہوتی تھی۔ اگرچہ حجم محدود تھا، تاہم اس کی بحالی کو علامتی اور اقتصادی اعتبار سے اہم سمجھا جا رہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس اقدام کا مقصد نہ صرف تجارتی تعلقات بہتر کرنا بلکہ جنوبی ایشیا میں اسٹریٹجک توازن کو برقرار رکھنا بھی ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے بتایا کہ بھارت تمام نامزد تجارتی پوائنٹس، جن میں اتراکھنڈ میں لیپولیکھ پاس، ہماچل پردیش میں شپکی لا پاس اور سکم میں ناتھو لا پاس شامل ہیں، کے ذریعے سرحدی تجارت دوبارہ شروع کرنے میں سہولت فراہم کرنے کے لیے چینی حکام کے ساتھ گفتگو کر رہا ہے۔
چینی وزیر خارجہ وانگ یی کی نئی دہلی آمد متوقع ہے تاکہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ اور حکام مشترکہ تجارتی، اقتصادی اور اسٹریٹجک معاملات پر بات چیت کریں۔ اس سے قبل بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے جولائی میں بیجنگ کا دورہ کیا تھا، جس میں دوطرفہ تعلقات اور ممکنہ تعاون کے امکانات پر غور کیا گیا۔
ماہرین کے مطابق یہ دورانیہ دونوں ممالک کے درمیان 2020 میں پیش آنے والی مہلک سرحدی جھڑپ کے بعد تعلقات کی بحالی کے لیے اہم سنگِ میل ہے۔ براہِ راست پروازوں، سیاحتی ویزوں اور سرحدی تجارتی راستوں کی بحالی کے معاہدے نہ صرف اقتصادی روابط کو مستحکم کریں گے بلکہ سیاسی اور فوجی کشیدگی کو کم کرنے میں بھی مددگار ہوں گے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عالمی تجارتی بحران اور امریکی ٹیرف نظام نے بھارت اور چین کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات بہتر کریں، تاکہ جنوبی ایشیا میں اقتصادی اور تجارتی استحکام قائم رہے۔ اس اقدام سے دونوں ممالک کی مقامی صنعتوں، سرمایہ کاری اور تجارتی ترقی کو فروغ ملنے کے امکانات روشن ہیں۔
اقتصادی اور سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس تاریخی قدم سے بھارت اور چین کے تعلقات میں اعتماد بحال ہوگا اور خطے میں امن و استحکام کو فروغ ملے گا، جبکہ عالمی سطح پر دونوں ممالک کے کردار کو بھی مضبوط کرے گا۔
0 Comments