یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ روس کی جانب سے بار بار جنگ بندی کی اپیلوں کو مسترد کرنا جنگ کے خاتمے کی کوششوں کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ ماسکو کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ اب تک طے نہیں ہو پایا کہ روس کب جنگ اور قتل و غارت کو روکے گا۔
زیلنسکی آئندہ سوموار کو واشنگٹن ڈی سی پہنچ رہے ہیں جہاں ان کی ملاقات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے متوقع ہے۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ زیلنسکی پر زور دیں گے کہ وہ روس کے پیش کردہ امن معاہدے پر متفق ہوں۔ امریکی صدر کے مطابق وہ جنگ بندی کے بجائے براہِ راست ایک مستقل امن معاہدہ چاہتے ہیں تاکہ روس اور یوکرین کے درمیان برسوں سے جاری اس خونی جنگ کو ختم کیا جا سکے۔
ٹرمپ نے اپنے مؤقف میں بڑی تبدیلی لاتے ہوئے ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ اکثر جنگ بندیاں زیادہ دیرپا نہیں ہوتیں، اس لیے ایک مستقل امن معاہدہ ہی سب سے بہتر راستہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے حالیہ ملاقات میں بھی یہی بات سامنے آئی۔
زیلنسکی نے اجلاس کے بعد ٹرمپ سے فون پر بات کرتے ہوئے حقیقی اور دیرپا امن کی اپیل کی اور کہا کہ "قتل و غارت کا خاتمہ ہونا چاہیے"۔ انہوں نے اپنی شرائط بیان کرتے ہوئے کہا کہ ماسکو کے ساتھ کسی بھی امن معاہدے میں مضبوط سلامتی کی ضمانت اور ان بچوں کی واپسی شامل ہونی چاہیے جنہیں ان کے مطابق روسی فورسز نے قابض علاقوں سے اغوا کیا ہے۔
یوکرین کا سب سے بڑا مطالبہ فوری جنگ بندی رہا ہے تاکہ اس کے بعد طویل المدت تصفیے پر بات ہو سکے۔ تاہم رپورٹس کے مطابق پیوٹن نے ٹرمپ کے سامنے ایک نئی تجویز رکھی ہے جس کے مطابق یوکرین کو ڈونباس کے علاقے دونیتسک سے انخلا کرنا ہوگا اور اس کے بدلے میں روس زاپوریزیا اور خیرسون کے محاذ ختم کر دے گا۔
روس نے 2014 میں کریمیا پر قبضہ کیا اور ریفرنڈم کرا کے اسے اپنے ساتھ ملا لیا۔ آٹھ سال بعد ماسکو نے یوکرین پر مکمل حملہ کر دیا۔ اس وقت روس ڈونباس کے بڑے حصے پر قابض ہے اور دونیتسک کا تقریباً 70 فیصد علاقہ اس کے کنٹرول میں ہے۔
امریکی صدر اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ کسی امن معاہدے میں علاقوں کا کچھ تبادلہ شامل ہو سکتا ہے۔ تاہم چند روز پہلے زیلنسکی نے واضح کر دیا تھا کہ وہ ڈونباس کے کنٹرول سے دستبردار نہیں ہوں گے کیونکہ اس سے روس کو مستقبل میں مزید حملوں کا موقع مل سکتا ہے۔
0 Comments