اسلام آباد میں پریس بریفنگ دیتے ہوئے چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر نے بتایا کہ حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے 313 سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں جبکہ گلگت بلتستان میں فلیش فلڈز اور سیاحتی حادثات نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
ان کے مطابق خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں کئی علاقے زمینی رابطوں سے کٹ گئے ہیں جبکہ گمشدہ افراد کی تلاش کے لیے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ متاثرہ اضلاع میں خوراک اور امدادی سامان فراہم کیا جا رہا ہے اور زیادہ متاثرہ علاقوں میں کل سے ریلیف پیکجز پہنچائے جائیں گے۔
لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر نے کہا کہ مون سون کا پھیلاؤ اس بار ستمبر کے پہلے دس دنوں تک رہے گا اور گرمی کی شدت زیادہ ہونے کی وجہ سے بارشوں کے اثرات مزید شدید ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق نقصانات کے ازالے اور متاثرہ خاندانوں کے سروے کا آغاز کیا جا رہا ہے جبکہ مواصلاتی نظام کو ترجیحی بنیادوں پر بحال کیا جائے گا۔
ٹیکنیکل ایکسپرٹ ڈاکٹر طیب شاہ نے وضاحت کی کہ 22 اگست تک بارشوں کا موجودہ سلسلہ جاری رہے گا، اس کے بعد مزید تین نئے سپیل پاکستان کی جانب بڑھیں گے، ایک خلیج بنگال اور دوسرا افغانستان کے ننگرہار و قندھار ریجن سے۔
ادھر جنرل منیجر این ڈی ایم اے زہرا حسن نے بتایا کہ اگلے 24 سے 48 گھنٹوں میں شدید بارشوں کا امکان ہے جبکہ تربیلا ڈیم 98 فیصد بھر چکا ہے، جس سے پانی کی سطح خطرناک حد تک بڑھ سکتی ہے۔ ان کے مطابق آزاد کشمیر کے نیلم، پونچھ اور باغ سمیت خیبرپختونخوا کے پشاور، چترال، دیر اور چارسدہ میں بھی سیلاب کا خطرہ ہے۔
ممبر آپریشنز بریگیڈیئر کامران نے کہا کہ فروری 2025 سے ہی مون سون کے پیش نظر تیاریوں کا آغاز کر دیا گیا تھا، تاہم بونیر اور باجوڑ میں حالیہ تباہی کلاؤڈ برسٹ کے باعث ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دو دنوں میں 337 افراد جاں بحق اور 178 زخمی ہوئے ہیں۔
بریگیڈیئر کامران کے مطابق آرمی اور ایف سی صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر ریسکیو اور ریلیف آپریشنز کر رہی ہیں جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے امدادی سامان کی دوسری کھیپ کل بونیر روانہ کی جائے گی۔
0 Comments